ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ہلکا پھلکا – ایک کرایہ دار کی آپ بیتی -ام عبدالرحمن

اس دلہن کا جب سرخی پاؤڈر اترتا ہے، تو بس پھر یا تو قسمت پر رشک آتا ہے یا قسمت پھوٹ جانے پر
رونا …. اور ہم کرائے داروں کو تو اکثر رونا ہی نصیب ہوتا ہے….ایک ستم ظریف تحریر

 

انسان کہیں بھی ہو مگر موت کی تلوارہمیشہ اس کے سر پر منڈلاتی رہتی ہے ۔ بالکل اسی طرح کسی کرایہ دار کے سر پر بھی ایک دو دھاری تلوار منڈلاتی رہتی ہے، اور وہ ہے گھر خالی کرنے یا کرایہ بڑھانے کی تلوار۔ لہٰذا ایک کرایہ دار کی حیثیت سے آج مالک مکان نے ہم پر بھی اس تلوار سے وار کیا ،بولا یا تو کرایہ بڑھا دو ،یا اگر اسی کرائے پر رہنا ہے تو اسی بلڈنگ کے نئے فلیٹ میں شفٹ ہو جاؤ جوکہ سائز میں اس فلیٹ سے آدھا ہے پر نیا ہے، یا فلیٹ خالی کر دو۔
ہمارے مقدر میں تیسری آپشن کا قرعہ نکلا۔ پہلی آپشن پر عمل ناممکن تھا۔ دوسری آپشن میں مسئلہ یہ تھا کہ اس نئے فلیٹ میں سامان پورا نہیں آئے گا۔ ہمارا سامان اتنا زیادہ ہے کہ کچھ نہ پوچھیں، بس ہم اور ہمارے شوق۔ ہمارے سامان کا حال یہ ہے کہ ہر گھر میں ہم ایک کمرے کو مکمل سٹور بنا دیتے ہیں،بیشک گھر چار کمروں کا ہو یا دو کا۔ اور مزے کی بات یہ کہ ان سٹور میں موجود ڈبوں کو کھولنے کی نوبت ہی نہیں آتی، بلکہ الٹا ان میں کمی کی بجائے ہر مرتبہ اضافہ ہی ہوتا نظر آتا ہے ۔ شدید سردی میں اکثر جانور ہائبرنیشن پیریڈ میں چلے جاتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے میرے سٹور کے ڈبوں میں موجود اشیاء اور گھر کا سامان پرانے کرائے کے گھر سے نئے کرائے کے گھر کے سٹور اور گھر میں شفٹ ہونے کے پیریڈ کے دوران ری پروڈکشن( افزائش نسل)کے دور میں چلے جاتے ہیں۔ جس طرح جانداروں کی ری پروڈکشن سے آبادی میں اضافہ ہوتا ہے، اسی طرح میرے سٹور کے ڈبوں میں موجود بے جان اشیاء کی تعداد میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، اور اس اضافے کااحساس میرے میاں صاحب کو شفٹنگ کے دوران ہوتا ہے ۔کہیں گے، کتنا سامان اکٹھا کرتی ہو تم، تو میں کہتی ہوں، یہ میری اماں کی بجائے میاں صاحب کا دیا ہؤا جہیز ہے ۔ویسے دیکھا جائے توآج کل کا انسان چھوٹا کنبہ خوشحال گھرانہ کے سلوگن پر چلتے ہوئے فیملی پلاننگ کرکے اپنی نسل کی پروڈکشن تو کم کر لیتا ہے مگر مادی اشیاء خاص طور پر موبائل کمپیوٹر اور الیکٹرانک چیزوں کا ہر دوسرے دن کیا ہر دوسرے منٹ ایک نیا ورژن آجاتا ہے جس کی وجہ سے پہلا بیکار ہو کر سٹور روم کی زینت بن جاتا ہے۔ ہمارے سٹور کی زینت میں اضافہ کی ایک بڑی وجہ یہی جدت پسندی کے ساتھ اشیاء کی مارکیٹ میں ری پروڈکشن اور پھر ان پر لگی آفر اور سیلز ہیں ۔ ان آفرز اور سیلز پر لگی انسانوں کی قطاروں کو دیکھ کر جہاں یہ محسوس ہوتا ہے کہ پورے شہر کی نہیں بلکہ پورے ملک کی آبادی خریداری کےلیے امڈ آئی ہے، وہیں اس بات کی بھی حیرت ہوتی ہے، کہ اس خریداری کے دوران غربت، مہنگائی اور بھوک کا کوئی شور کیوں سنائی نہیں دیتا۔ ہر کوئی جان جوکھوں میں ڈال کر پہلے آؤ پہلے پاؤ کے چکر میں قسمت آزما رہا ہوتا ہے اور اس قسمت کو آزماتے آزماتے ہم جو بوجھ اپنی جانوں پر ڈال اور بڑھا لیتے ہیں بس کچھ نہ پوچھیں۔ موت کی حقیقت کو یاد رکھنے کا کہا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ دنیا میں ایسے رہو جیسے کہ تم اجنبی ہو یا راستے سے گزرنے والے( مسافر)…. یہی بات ہم جیسے کرائے داروںکے لیےبھی بہت اہم ہے مگر دونوں معاملات میں انسان یا تو نسیان کا شکار ہے یا پھر گنگناتا پھرتا ہے:
دل ہے کہ مانتا نہیں!
یہ تو تھا ایک کرائے دار کے مسئلوں میں سے ایک مسئلہ….یعنی سامان کا مسئلہ۔ دوسرا بڑا مسئلہ کرایہ کے لیے خالی مکان کا ملنا ہے ۔ ویسے تو جو مکانات کرائے پر دیے جاتے ہیں ان کے مالکان کا ان مکانات کے ساتھ یتیموں، لاوارثوں یا پھر سوتیلی اولاد جیسا سلوک ہوتا ہے۔ جو کوئی ذرا نرم دل کے مالک ہوتے ہیں وہ اس کی تھوڑی بہت لیپا پوتی کر کے پہلی رات کی دلہن کی طرح تیار کروا کے کرائے دار کے حوالے کر دیتے ہیں۔ اس دلہن کا جب سرخی پاؤڈر اترتا ہے، تو بس پھر یا تو قسمت پر رشک آتا ہے یا قسمت پھوٹ جانے پر رونا…. اور ہم کرائے داروں کو تو اکثر رونا ہی نصیب ہوتا ہے۔
خیر! ہمارے میاں صاحب کا بھی دل ایک خستہ حال اور لاوارث مکان پر پگھلا ۔اب اس دل کا پگھلنا مجبوری تھی یا جلد بازی اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اس کی خستہ حالی اور طبیعت سے ہم اپنے میاں صاحب کو پہلے ہی آگاہ کر چکے تھے مگر انھوں نے بڑے پر اعتماد لہجے میں کہا، انشاءاللہ جب ہمارے زیر سایہ آئے گا تو بہتر ہو جائے گا۔ ہم بھی خاموش ہوگئے اور قانونی طور پر اس کو اپنے زیر سایہ رکھنے کا کام بھی مکمل کر لیا۔ جیسے ہی یہ کام مکمل ہوا تو انکشاف ہوا کہ اس لاوارث مکان کی صرف ظاہری حالت ہی خراب نہیں بلکہ اس کے تو دل (کچن) اور گردے (واش روم ) دونوں ہی فیل ہیں۔ دل کا تو ایک آدھا والو بند ہوتا تو چلو سٹنٹ ڈلوا کر گزر بسر ہو جاتی، مگر یہاں تو ٹرانسپلانٹ سرجری کے بغیر گزارا ہی نہیں تھا، مرتے کیا نہ کرتے اس کا خطرہ بھی مول لینا پڑا ۔اور جہاں تک بات تھی گردوں( یعنی واش رومز) کی تو شکر ہے ڈاکٹر اچھا مل گیا۔ اس نے نیا گردہ ڈلوانے کی بجائے اس کے تین سے چار ڈائیلیسیز سیشن کیے اور امید دلائی کہ اگر احتیاطی تدابیر کو ملحوظ خاطر رکھا گیا تو انشاءاللہ اب کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔
دل اور گردے تو فیل تھے ہی، یہاں تو طاعون ( چوہوں سے جنم لینے والی بیماری )کے جراثیم کا بھی خطرہ منڈلا رہا تھا ۔وہ تو شکر ہے اس بیماری کو پھیلنے سے پہلے ہی ہم نے اس کا حملہ ناکام بنا دیا ورنہ اس حملےکے لیے بھی ایک فوج مکمل تیار تھی۔ باقی اس لاوارث مکان کو آنکھ، ناک اور کانوں ( کھڑکیوں اور دروازوں) سے بھی کافی حد تک معذور ہی سمجھیں کیونکہ ان پر دیمک کی بیماری پوری طاقت کے ساتھ حملہ آور ہو چکی ہے ۔ خیر چونکہ ہم نے اس پر دست شفقت رکھ ہی دیا ہے تو ہم بھی بھر پور تیاری کے ساتھ ان بیماریوں کا مقابلہ کریں گے اور اپنی اولاد کی طرح سینے سے لگائیں گے، باقی نیتوں کے حال اللہ ہی جانتا ہے ۔
آخر میں تو یہی کہا جا سکتا ہے اللہ ہمیں درست اور اچھے فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اگر غلط فیصلوں یا جلدی اور مجبوری میں کیے گئے فیصلوں سے کوئی مشکل آپڑے تو اس کو اپنی رحمتوں سے دور فرمائے، آمین۔

٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
1 1 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x